(حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (پی ۔ ایچ ۔ ڈی : امریکہ) ایڈیٹر : عبقری )
بندہ چند بڑوں اور بزرگو ں کی صحبت میں بیٹھتا رہا ہے۔ ان بزرگو ں کے مفید مو تی قارئین کی نذر کر تا ہو ں۔
فر ما یا :۔ جس کو میں نے کھلا یا اس کا احسا ن سمجھا یعنی اسکی مہربانی کہ اس مہما ن یا مفلس نے میرا کھا نا قبول کیا اسکی مہربانی او ر احسان ہے۔ جس کو میں نے دیا اسکو کم ہی سمجھا یعنی اگر کسی پر کوئی ما لی احسان کیا تو اندر خیا ل آیا کہ یہ دیاکم ہے ورنہ اسکو اس سے بھی زیادہ ضرورت تھی دے کرفخر نہیں بلکہ عاجزی محسوس کی میرا دیا بالکل کم۔
فر ما یا :۔ حضور ﷺ اورصحابہ اہل بیت رضوان الراحمین کی زندگی کتابوں اور تحریروں کے نقوش سے نفوس میں آ جا ئے۔ یعنی ہمارے دلو ں میں اثر جا ئے اور عمل میں ا?جائے۔
فر ما یا :۔ اسلام نے دوسروں کے حقوق کی تعلیم دی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص دوسروں کے حقوق ادا کرنے والا بن جا ئے تمام جھگڑے ختم ہو ں گے۔ مغرب نے دوسروں سے اپنے حقوق لینے کا طالب ہے کہ میراحق ‘میرا حق! اسکی وجہ سے معاشرے میںجھگڑے ہوتے ہیں۔
فر ما یا :۔ ایک دینے کا جذبہ ہے ایک لینے کا جذبہ ہے‘ ساراجھگڑا لینے کے جذبے کے تحت ہوتا ہے۔ دینے کے جذبے پہ آجا ئیں تو محبت اور امن کی راہیں کھلیں گی‘ لینے کے جذبے میں معاشرے میں جھگڑوں کی اور بدامنی کی راہیں کھلیں گی۔ دنیا میں دیا ہے اور آخرت میں لینا اخلا ص ہے‘ دل سے جھوٹ کو نکالنا اخلا ص ہے اپنے سے کم درجے کے لوگو ں کی خدمت کرو اخلا ص ملے گا۔
فر ما یا : اخلاص آسمانی چیز ہے۔جھکنے سے آئے گی
فر ما یا : تما م انبیاء علیہ اسلام چلے اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم چلے حضور ﷺ کی نگرانی میں ہم چلیں گے بڑو ں کی نگرانی میں
فر ما یا : جو ساری زندگی اخلاص مانگتا ہے مو ت کے وقت اخلا ص ملے گا کیونکہ کو ئی عمل یا کوئی بول ایسا کہہ دیا ہے جس کی وجہ سے موت کے وقت اخلا ص ملتا ہے۔ جیسے ایک محدث کو صرف اس وجہ سے بخشش ملی کہ ایک پیاسی مکھی سیا ہی چوس رہی تھی انہوں نے انتظار کیا اڑایا نہیں۔
فر ما یا :ایک اور اللہ کے کامل بندے نے فرمایا :دو خصوصیا ت نبیﷺ والے کام میں ہیںایک اجتماعیت دوسرانقل و حرکت۔ معاشرے میں ہر بندے کا انفرادی نظام چل رہا ہے جب تک امت کے اجتماعی نظام میں نہیں چلیں گے زندگی نہیں بدلے گی۔
فر ما یا : راتوں کو اللہ کا ذکر دھیان کے ساتھ کرنا حکمت اور بصیرت کو جار ی کر تا ہے۔
فر ما یا : دین انسانوں کے ذریعے، رہبری قرآن و حدیث سے حضرت ابوذر میں عاجزی انکساری دوسرا سورہ اخلا ص کی کثرت کر تے تھے۔
فر ما یا :جب تیری کسی مسلما ن پر نگاہ پڑے سوچ اس کے اندر ایما ن ہے اللہ تعالیٰ کے ہا ں محبوب ہے اسکی قدر کر نی ہے۔
فر ما یا : جو داعی اللہ تعالیٰ سے غافل ہو کر چلے گا کام نہیں کر سکے گا
فر ما یا : قرآن میں درگزر کی ایک آیت میں ہے قصور چھپا دینا۔ مٹی ڈال ڈالنا۔ وتفغرو کہ اسکا تذکرہ بھی ختم کر دیں۔
فر ما یا : کہنے لگے کہ میں ہر سفر میں دْعا کر تا ہو ں کہ اے اللہ! تومسافر کی دْعا رد نہیں کرتاقبول کر تا ہے میری بھی دعا قبول کر۔
فر ما یا : بڑوں کے پا ئوں دبانا آسان بے حیثیت لو گو ں کی خدمت کرنا مشکل ہے عاجزی بے حیثیت لو گو ں سے آتی ہے۔
(www.ubqari.org)
٭…٭…٭